جمعرات، 7 اگست، 2025

(تجھے خدا نے طلاق دی کہنے سے طلاق ہوگی؟)

(تجھے خدا نے طلاق دی کہنے سے طلاق ہوگی؟)

(الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی نے اپنے بیوی سے کہا کہ تجھے خدا نے طلاق دی تو کیا طلاق ہو جائے گی؟ جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی۔

(سائل: محمد غلام رسول، انڈیا)

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: صورت مسئولہ میں ایک طلاقِ رجعی واقع ہوگئی۔ چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: رجل قال لامرأته طلقك الله تعالى تطلق وإن لم ينو كذا في الخلاصة. وهو الأصح هكذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، ۱/۳۵۹)

یعنی، اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا: ’’اللہ تعالیٰ نے تجھے طلاق دی‘‘ تو طلاق واقع ہو جائے گی اگرچہ اس نے نیت نہ کی ہو، ایسا ہی ’’خلاصہ‘‘ میں ہے، اور یہی قول زیادہ درست ہے، ایسا ہی ’’محیط‘‘ میں ہے۔

اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ ’’رد المحتار‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں: اگر کہا تجھے خدا طلاق دے تو واقع نہ ہوگی اور یوں کہا کہ تجھے خدا نے طلاق دی تو ہو گئی۔ (بہار شریعت، ۲/۱۱۹)

   لہٰذا اگر عدّت باقی ہو تو شوہر کو رُجوع کا اختیار حاصل ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بیوی سے کہہ دے: ’’میں نے تجھ سے رجوع کیا‘‘، اور بہتر یہ ہے کہ دو عادل (یعنی نیک پرہیزگار) گواہوں کی موجودگی میں یہ بات کہے۔ اس صورت میں عورت بدستور اس کی بیوی شمار رہے گی، اور اگر عدّت مکمل ہو چکی ہو تو شوہر، عورت کی رضامندی سے، نئے مہر کے ساتھ دوبارہ اس سے نکاح کر کے اسے اپنے ساتھ رکھ سکتا ہے۔ لیکن دونوں صورتوں میں شوہر کے لیے آئندہ صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہے گا، بشرطیکہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی گئی ہو۔ پس جب بھی وہ دو طلاقیں دے گا تو عورت اس پر حُرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی، اور پھر شرعی حلالہ کے بغیر نکاح ممکن نہ ہوگا۔والله تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

جمعرات،۱۲/صفر، ۱۴۴۷ھ۔۸/اگست، ۲۰۲۵م


ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only